کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 68
ماضی قریب میں برصغیر کے علماء میں یہ اثر بڑا موضوعِ بحث بنا رہا۔ نواب صدیق حسن خان مرحوم نے دلیل الطالب اور ابجد العلوم میں اس پر نقد کیا تو مولانا عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے اثبات پر تین رسالے لکھے۔ دو اردو زبان میں، ایک ’دافع الوسواس فی اثر ابن عباس‘، دوسرا ’ الآیات البینات علی وجود الانبیاء فی الطبقات‘ کے نام سے اور ایک رسالہ عربی میں ’’ زجر الناس علی انکار اثر ابن عباس‘‘ کے نام سے۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ان کے ہمنواؤں نے بھی اس کا اثبات کیا ہے مگر امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے تبصرہ کے بعد اس کو صحیح قرار دینا درست نہیں۔ شیخ ابوغدہ نے بھی مولانا لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ظفر الامانی[1] کی تحقیق وتعلیق میں اس کو ضعیف اور شاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے سنداً ومعناً شاذ قرار دے کر ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ اور ابن حجر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے جیسا کہ علامہ العجلونی رحمۃ اللہ علیہ نے کشف الخفاء[2] میں ذکر کیا ہے۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا مفصل کلام الحاوی [3] میں دیکھا جاسکتا ہے۔ نواب والا جاہ مرحوم نے ابجد العلوم[4] میں بھی علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا مکمل کلام نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ قسطلانی اور علامہ الحلبی وغیرہ سے بھی اس کی تضعیف نقل کی ہے تمام اقوال کی تفصیل یہاں ضروری نہیں۔ شائقین محولہ کتب کی مراجعت فرمائیں۔[5]
جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس اثر کے بارے میں اہلِ علم کی آرا مختلف ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک راجح قول اکثر اہلِ علم ہی کا ہے کہ یہ شاذ اور ضعیف ہے۔ اور اس پر کسی عقیدہ کی بنیاد درست نہیں۔
[1] ظفر الامانی: 570، 571.
[2] کشف الخفاء : 1/123.
[3] الحاوی : 1/386.
[4] ابجد العلوم : 1/441.
[5] علامہ ابوحیان نے البحر المحیط، ج:۸، ص: ۲۸۷ میں کہا ہے کہ اس کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں اور یہ واقدی کذاب کی روایات سے ہے۔ انہی کے حوالے سے یہ بات علامہ آلوسی نے روح المعانی، ج:۸، ص:۱۲۵ اور پیر کرم شاہ صاحب نے ضیاء القرآن، ج:۵، ص:۲۸۸ میں کہی حالانکہ ’’المستدرک‘‘ اور ’’الأسماء والصفات‘‘ کی روایت قطعاً واقدی سے منقول نہیں ہے.