کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 38
’’اوناس‘‘ نامی تاجر کا اخبارات میں ذکر ہوا جو دنیا کی سب سے بڑی جہاز سازکمپنی کا مالک تھا۔ اور دنیا کے امیر ترین انسانوں میں ایک وہ بھی شمار ہوتا تھا۔ اس سے انٹرویو لیا گیا تو اس سے پوچھا گیا آپ کی کوئی خواہش؟ اس نے کہا: ہاں ایک خواہش ہے مجھے ایک عارضہ ہے کہ میری پلکوں کے بند ہونے اور کھلنے کی صلاحیت مفقود ہوگئی ہے، ڈاکٹروں نے دیکھنے کے لیے پپوٹوں پر سلوشن لگا دیا ہے۔ پلکوں کو ان کے ساتھ چمٹا دیتا ہوں تھک جاتا ہوں یا سونا چاہتا ہوں تو پلکیں نیچے کرلیتا ہوں۔ اس کا کوئی علاج آج تک کوئی ڈاکٹر نہیں کرسکا۔ انٹرویو لینے والے نے پوچھا اگر یہ درست ہوجائیں تو کیا انعام واکرام دیں گے؟ اس نے کہا اپنی ساری دولت اور سارا اثاثہ دینے کے لیے تیار ہوں۔ [1] اس سے اندازہ کیجیے کہ اللہ کی ایک ایک نعمت کس قدربیش قیمت ہے۔ یہ روشنی، یہ ہوا ہمیں مفت میں حاصل ہورہی ہیں۔ جبکہ بجلی کے قمقموں اور پنکھوں کو چلانے کے لیے ہر ماہ کتنا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اللہ کی ان بے شمار نعمتوں میں سے کسی ایک نعمت کا شکر بھی ادا نہیں ہوسکتا۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت داود علیہ السلام نے فرمایا: إلٰہِیْ لَوْ اَنَّ لِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنِّیْ لِسَانَیْنِ یُسَبِّحَانِکَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالدَّہْرَ مَا وَفَیْتُ حَقَّ نِعْمَتِکَ وَاحِدَۃً[2] ’’میرے مولیٰ! اگر میرے ہر بال کی دو زبانیں ہوں جو زندگی بھر صبح وشام تیری تسبیح بیان کریں تو تیری ایک نعمت کا بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔‘‘ یہ سب نعمتیں بجا مگر اس نعمت پر ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ کہنا اس نعمت سے بھی بڑی نعمت ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس دعا سے استدلال کیا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے بعد قومے کی حالت میں پڑھتے تھے:
[1] ہفت روزہ الاعتصام، ۲۱ جون ۲۰۰۲ء. [2] عدۃ الصابرین: 128.