کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 35
خصلت کا بیان ہی کافی ہے۔ جب کوئی آدمی تمھاری کسی روز مدح سرائی کرتا ہے، تو اس کے لیے یہ تعریف کرنا ہی اس کے سوال وطلب کے لیے کافی ہے۔ وہ ایسا سخی ہے کہ صبح وشام اس کے بہترین اخلاق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔‘‘
امام سفیان رحمہ اللہ نے یہ شعر پڑھ کر فرمایا: لو جب سوال کی بجائے مخلوق کی ثنا وتعریف ہی اپنے ممدوح کے لیے کافی ہے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں کیا خیال کیاجاسکتا ہے۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعریف وثنا کہنے والا دو اعتبار سے دعا کرنے والا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’وَالْمُثْنِیْ عَلَی رَبِّہِ بِحَمْدِہِ وَآلآئِہِ دَاعٍ لَہٗ بِالاِعْتِبَارَیْنِ فَاِنَّہٗ طَالِبٌ مِنْہٗ، طَالِبٌ لَہٗ فَہُوَ الدَّاعِیْ حَقِیْقَۃً‘
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کی تعریف وحمد کرنے والا دو اعتبار سے دعا کرنے والا ہے ایک یہ کہ وہ اللہ سے مانگتا اور سوال کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اللہ کے لیے مانگتا ہے اور یہی حقیقتاً دعا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ھُوَ الْحَیُّ لَا اِلَہَ اِلَّا ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ ‘[1]
’’وہی زندہ ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ خالص اسی کو پکارو، دین اسی کا ہے۔ سب تعریفیں تمام جہانوں کے ربّ کے لیے ہی ہیں۔‘‘
یہ جو انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’وہ اللہ کے لیے مانگتا ہے‘‘ تو اس کا مفہوم یہ ہے وہ صحت، اولاد، مال غرضیکہ جو بھی مانگتا ہے اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کی بندگی کی ادائیگی کے لیے مانگتا ہے۔ مال طلب کرتا ہے تو اس لیے کہ اسے اللہ کی راہ میں
[1] فقہ الأدعیۃ والأذکار: 1/235.