کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 33
ہر کسی کے مقابلے میں اللہ کی بڑائی کا اعتراف ہے جبکہ الحمد للہ میں جمیع محامد کا اثبات،تنزیہ اور توحید کو مستلزم ہے۔ تمام صفاتِ کمالیہ کا اقرار ہے۔ اس لیے کہا گیا کہ ’الحمد للہ‘ افضل الکلام اور احبُّ الکلام ہے۔
گویا ’’الحمد للہ‘‘ کلمۂ حمد وشکر ہی نہیں کلمۂ توحید وتمجید بھی ہے۔ اور یہی پہلا اور آخری سبق ہے۔ مگر علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ کفر سے ایمان میں آنے کا کلمہ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہ ہے۔ اسی کے بارے میں ارشاد ہے کہ لوگ جب تک لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہ نہیں کہتے مجھے ان کے خلاف قتال کا حکم ہے، اور اس میں فیصلہ کن بات تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے جو آپ نے ارشاد فرمائی کہ
’اَفْضَلُ مَا قُلْتُ اَنَا وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ قَبْلِیْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ ‘[1]
’’سب سے افضل وہ کلمہ ہے جو میں نے اور مجھ سے پہلے تمام انبیاء نے کہا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘
مگر یہ کلمۂ توحید بھی انہی چار کلمات کا حصہ اور جز ہے۔ یہ کلمہ ایمان ہے اور جنت کی چابی ہے۔ تاہم حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہما کی حدیث سے من وجہ، الحمد للہ کی افضیلت ثابت ہوتی ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چار کلمات اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے منتخب ہیں۔ جو ’’سبحان اللہ‘‘ کہتا ہے اس کے لیے بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور بیس گناہ معاف ہوتے ہیں۔ جو ’ اللّٰہُ اَکْبَرْ‘ اور ’ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہ‘ کہتا ہے اسے بھی اتنا ہی اجر وثواب ملتا ہے۔ یعنی بیس، بیس نیکیاں ملتی ہیں اور بیس،بیس گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اور جو کوئی دل سے الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے اسے تیس نیکیاں ملتی ہیں اور تیس گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ حدیث مسند امام احمد، السنن الکبریٰ للنسائی اور مستدرک حاکم میں صحیح سند سے مروی ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ
[1] تفسیر قرطبی: 1/132.