کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 27
’’یقینا تیرا رب وسیع بخشش والا ہے، وہ تمہیں زیادہ جاننے والا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں بچے تھے،سواپنی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو، وہ زیادہ جاننے والا ہے کہ کون بچاہے۔‘‘
یہود ونصاریٰ اپنے آپ کو اللہ کی اولاد اور محبوب سمجھتے اور کہتے کہ جنت میں ہم ہی جائیں گے۔ جہنم میں گئے بھی تو یہ چند دنوں کا معاملہ ہوگا۔ اسی تناظر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ﴾[1]
’’کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاک صاف کہتے ہیں، بلکہ اللہ پاک کرتا ہے جسے چاہتا ہے۔‘‘
کسی انسان کی تعریف وتوصیف کا مدار تقویٰ اور اس کے قلب کی پاکیزگی اور اخلاص پر ہے۔ اور اس کا حال اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا:
’وَیْلَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ۔‘
’’افسوس کہ تم نے تو اپنے ساتھی کی گردن ہی مار دی۔‘‘
یہ بات آپ نے کئی بار دہرائی، پھر فرمایا:
’اِذَا کَانَ اَحَدُکُمْ مَادِحاً صَاحِبَہٗ لَا مَحَالَۃً فَلْیَقُلْ أحْسِبُ فُلَاناً وَاللّٰہُ حَسِیْبُہٗ وَلَا أُزَکِّیْ عَلَی اللّٰہِ أَحَداً أَحْسِبُہٗ کَذَا وَکَذَا۔‘[2]
’’اگر تم میں سے کسی کے لیے کسی کی تعریف ناگزیرہو تو وہ یوں کہے کہ میں فلاں شخص کو ایسا اور ایسا سمجھتا ہوں، اللہ ہی اسے بہتر جانتا
[1] النساء: 49.
[2] بخاری: 2662 ،6162،مسلم: 7502.