کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 26
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انعام واکرام کے باوجود آپ اپنے مولا سے سربسجود ہو کر عرض کرتے ہیں:
’لَا اُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ۔[1]
’’الٰہا! میں آپ کی ثنا کا حق ادا نہیں کرسکتا آپ اسی طرح ہیں جیسے آپ نے اپنی ثنا خود کی ہے۔‘‘
زمین وآسمان اور ان کے مابین ہر چیز اللہ کی ثنا خوانی میں مصروف ہے:
﴿تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْہِنَّط وَ اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَ ٰلکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا ﴾،[2]
’’ساتوں آسمان اور زمین اس کی تسبیح کرتے اور وہ بھی جو ان میں ہیں، اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے، بے شک وہ ہمیشہ سے بے حد بردبار نہایت بخشنے والا ہے۔‘‘
اس لیے وہی ذاتِ پاک حمد وثنا کی سزا وار ہے۔ اور وہی ہے جس نے اپنی تعریف خود آپ کی ہے، اور وہی اس کا مستحق ہے۔
۶: اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے لائق نہیں کہ وہ خود اپنی تعریف اور اپنی مدح بیان کرے۔ بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کو اس سے منع کیا ہے۔ چناں چہ ارشاد فرمایا:
﴿اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ فَلاَ تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی﴾[3]
[1] نسائي: 1101.
[2] بنی اسرائیل : 44.
[3] النجم: 32.