کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 240
لَنْ یُنْجِیَ اَحَداً مِنْکُمْ عَمَلُہٗ۔ قَالُوْا: وَلَا اَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: وَلَا أَنَا، اِلَّا اَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَۃٍ [1] ’’ہرگز تم میں سے کسی کا عمل اسے نجات نہیں دلا سکتا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بھی؟ فرمایا: اور میں بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔‘‘ تقریباً یہی روایت صحیح مسلم[2] میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں: لَا یُدْخِلُ اَحَداً مِنْکُمْ عَمَلُہٗ الْجَنَّۃَ، وَلَا یُجِیْرُہٗ مِنَ النَّارِ، وَلَا أَنَا اِلَّا بِرَحْمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ [3] ’’کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا اور نہ آگ سے بچائے گا، اور نہ ہی مجھے، الاَّ یہ کہ اللہ کی طرف سے رحمت ہوجائے۔‘‘ عمل کا دائرۂ عمل بہرحال محدود ہے اور جنت اللہ تعالیٰ کی دائمی نعمت ہے۔ اس لیے جنت اعمال کا نتیجہ کیوں کر ہوسکتی ہے۔ مگر قرآنِ مجید میں ہے کہ فرشتے اہل ایمان کی روح قبض کرتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ لا ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾[4] ’’سلام ہو تم پر، جنت میں داخل ہوجاؤ، اس کے بدلے جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘ اسی طرح اہل جنت کے بارے میں ہے کہ ﴿وَنُودُوْآ اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ [5]
[1] بخاری : 6463، مسلم : 2816. [2] مسلم : 2818. [3] مسلم : 2817. [4] النحل : 32. [5] الاعراف : 43.