کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 24
ہَذَا إسْنَادٌ لَا بَاْسَ بِہِ۔‘[1] چھینک آنے پر الحمد للہ اور اس کا جواب دینے میں آج بھی مسنون طریقہ یہی ہے۔ طبِ جدید نے اعتراف کیا ہے کہ چھینک آنے پر دل کی حرکت بند ہوجاتی ہے۔ گویا اس کے بعد حیاتِ نو پر الحمد للہ ربّ العالمین کہہ کر اللہ کی حمد اور اس کی نعمت پر شکر کا اظہار ہے۔ اسی طرح جن انسانوں کی قسمت میں جنت کا فیصلہ کردیا جائے گا ان کی آخری دعا یہی ’’الحمد للہ‘‘ ہوگی۔ چناں چہ ارشاد فرمایا: ﴿دَعْوَاہُمْ فِیْہَا سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلاَمٌ وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ [2] ’’ان کی دعا ان میں یہ ہوگی ’’پاک ہے تو اے اللہ‘‘ اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات ) میں سلام ہو گی اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘ گویا جب جنت کا نظارہ کریں گے تو سبحان اللہ، سبحان اللہ کی صدا ہوگی۔ اہلِ جنت باہم آپس میں ملیں گے تو سلام، سلام کہیں گے، ربّ کریم کی طرف سے بھی ﴿سلام قولا من رب رحیم﴾ کی صدا آئے گی۔ فرشتے بھی ان پر داخل ہوتے ہوئے سلامٌ، سلامٌ پکاریں گے، جیسے فرمایا: ﴿وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ﴾ [3] اور جب بیٹھیں گے اور جنت کی دائمی لذتوں کا احساس پائیں گے تو الحمد للہ رب العالمین پکاریں گے۔ سورۃالزمر میں بھی ہے: ﴿وَ قَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَ اَوْرَثَنَا الاََْرْضَ نَتَبَوَّاُ
[1] البدایۃ: 1/86. [2] یونس: 10. [3] الرعد: 23 ،24.