کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 239
انعامات کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔ فرشتے بھی قیامت کے روز اعتراف کریں گے کہ مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہوسکا۔ ثالثاً: اعمال میں یہ خطرہ دامن گیر رہتا ہے کہ اس کی ادائیگی میں کہیں کمی یعنی اخلاص سے سرانجام دینے میں کمی، اور سنت کی موافقت میں کوتاہی نہ رہ گئی ہو یا اس میں کسی وسوسۂ شیطانی کا عمل دخل نہ ہوگیا ہو۔ رابعاً: یہ خوف بھی لاحق ہوتا ہے کہ کوئی ایسا عمل نہ ہوجائے جو نیک عمل کی قبولیت سے مانع بن جائے۔ انہی خدشات کی بنا پر وہ اپنے اعمال کو نجات کا یقینی ذریعہ اور درجات کی بلندی کا باعث نہیں سمجھتا بلکہ بس اس کی امید رکھتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ ٰاتَوْا وَّ قُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ راٰاجِعُوْنَ ﴾ [1] ’’اور وہ کہ انہوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں کہ یقینا وہ اپنے ربّ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا اس آیت کا مصداق وہ ہیں جو چوری کرتے، بدکاری کرتے اور شراب پیتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا یَا بِنْتَ الصِّدِّیْقِ، وَلٰکِنَّہٗ الَّذِیْ یُصَلِّیْ وَیَصُوْمُ وَیَتَصَدَّقُ وَہُوَ یَخَافُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ [2] ’’نہیں، اے صدیق کی بیٹی! بلکہ اس کا مصداق وہ ہے جو نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے اور صدقہ کرتا ہے اور وہ اللہ عزوجل سے ڈرتا ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] المؤمنون : 60. [2] مسند احمد: ۶/۲۰۵.