کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 238
۷: وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں۔[1] درپردہ اور پوشیدہ طور پر صدقہ کرنے کی فضیلت میں اور احادیث بھی ہیں۔ شائقین اس بارے میں الترغیب والترہیب [2] ملاحظہ فرمائیں۔ ’’سراً‘‘ خرچ کرنے میں انسان ریا ونمود سے بچ جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ اس احساس کی بنا پر خرچ نہیں کرتا کہ مجھے کوئی دکھلاوے کے لیے خرچ کرنے والا نہ سمجھے، تو امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ’’عین الریاء‘‘ بالکل ریا ہے۔ شیطان کی چالیں بھی بڑی خطرناک ہیں وہ ریا کا وسوسہ ڈال کر نیکی سے روکتا ہے اور دوسروں کو تصور دیتا ہے کہ یہ بڑا مخلص ہے۔ ریا سے بچنے کے لیے نہیں دے رہا۔ ریا محض عمل کرنے میں نہیں بسا اوقات عمل نہ کرنے میں بھی ریا کا عمل دخل ہوتا ہے۔ مثلاً عشاء کے بعد وتر نہیں پڑھتا کہ لوگ سمجھیں تہجد گزار ہے۔ آخری رات وتر پڑھ لے گا ؎ بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں ﴿سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً ﴾ کا یہ مفہوم بھی ہے کہ وہ ہر حال میں، ہر وقت خرچ کرتے رہیں۔ لوگوں کو پتا چلے نہ چلے۔ اس فکر سے بے نیاز ہو کر ہر حال میں وہ خرچ کرتے ہیں۔ کیوں کہ مقصود اللہ کی رضا ہے کسی اور کو دکھلانا یا راضی کرنا نہیں۔ ﴿یَرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ﴾ وہ تلاوت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ وخیرات کرتے ہیں اس امید کے سہارے کہ یہ تجارت کبھی برباد اور کساد بازاری کا شکار نہیں ہوگی۔ بلکہ اس میں برکت ہی برکت ہوگی۔ ’یرجون‘ کے لفظ میں اشارہ ہے کہ یہ عبادت گزار اور وفا شعار اپنے کسی عمل پر بھروسہ نہیں رکھتے کہ یہ اعمال یقینا ان کی بخشش کا ذریعہ ہوں گے اور ان کا اجر وثواب بھی یقینی ہوگا۔ کیوں کہ اوّلاً: ان اعمال کی توفیق بھی تو اللہ تعالیٰ کی عنایت ونوازش ہی کا نتیجہ ہے۔ ثانیاً: انسان جس قدر بھی عبادت گزار ہو وہ اللہ کی عظمت وجلالت کا حق اور اس کے
[1] بخاری : 660، مسلم : 1031. [2] الترغیب والترہیب : 2/29.