کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 236
اسی طرح قرآنِ پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نمازیوں کی تعریف کی گئی ہے وہاں ’’اقامۃ‘‘ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ جیسے ’ اقاموا الصلاۃ، اقیموا الصلاۃ، یقیمون الصلاۃ، المقیمین الصلاۃ ‘
اس لیے ’’اقاموا‘‘ کے معنی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کی پابندی اور اس پر قائم رہنا مراد ہے۔ نماز میں نمازی اللہ کی توحید کا قیام میں رکوع وسجدہ میں، قومہ میں، تشہد میں اعتراف واقرار کرتا ہے تو نماز کے بعد بھی توحید پر قائم رہنا چاہیے، نماز میں کامل عبدیت اور عاجزی وانکساری کا اظہار ہے تو یہ عبدیت اور انکساری باقی لمحات میں بھی باقی رکھنا مطلوب ہے۔ نماز میں آنکھیں جھکی ر ہنی چاہییں، قیام اور رکوع میں سجدہ گاہ سے اور تشہد میں انگشتِ شہادت سے نگاہ متجاوز نہیں ہونی چاہیے۔ باقی لمحات میں بھی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم ہے۔
نماز میں تلاوتِ قرآن اور ذکر وتسبیحات ہیں تو اس عملِ خیر کا اہتمام باقی اوقات میں ہونا چاہیے، یہ اوقات بھی غفلت میں گزرنے نہیں چاہئیں۔ ایک رکعت میں نمازی پانچ بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اللہ کی کبریائی کا اعتراف کرتا ہے تو اس کے دل ودماغ میں کسی اور سپر پاور کا خوف نہیں سمانا چاہیے۔ وہ دائیں بائیں اپنے نمازی بھائیوں کوالسلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اور ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ ‘‘ کہہ کر سلامتی کا پیغام دیتا ہے تو پھر ان سے دھینگا مشتی اور لڑائی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ہمیشہ دوسروں کے لیے سلیم الصدر رہنا چاہیے۔
یہ ہے نماز پر قائم رہنا۔ اور ایسی نماز ہی ﴿تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ﴾ بے حیائی اور برائی سے روکنے والی ہے۔ اگر نماز پڑھنے والے اور بے نماز کی زندگی میں اور ان کے معاملات میں کوئی فرق نہیں تو یہ اسی لیے ہے کہ نمازی اپنی نماز پر قائم نہیں۔ وہ نماز کی راہ چھوڑے ہوئے ہے اور جو اس راہ پر قائم ہیں وہی اللہ تعالیٰ کے ہاں محمود اور محبوب ہیں۔
﴿وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْـنٰـہُمْ﴾ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کا یہ تیسرا وصف