کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 235
اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائضِ منصبی کا ذکر کرتے ہوئے ایک وصف یہ بیان فرمایا ہے: ﴿یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ ٰایٰتِہٖ﴾ [1] جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے۔ چناں چہ آپ اپنے مواعظ وخطبات میں، نمازوں میں، قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے قرآن پڑھتے تھے۔ اور قرآن پڑھنے کا حکم فرماتے تھے اور اس کے فضائل وبرکات سے آگاہ فرماتے تھے۔ جس کی تفصیل کتبِ احادیث میں موجود ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور سلفِ امت رحمۃ اللہ علیہم اسی بنا پر تلاوت قرآنِ پاک کا اہتمام کرتے۔ اور اسی عمل کے عاملوں کا یہاں ذکر ہے۔ حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر جو بصرہ کے عابد وزاہد تابعین میں شمار ہوتے ہیں، فرماتے ہیں: ہذہ آیۃ القراء ۔ یہ آیت قاریوں کے لیے ہے جو تلاوت کو اپنا مشغلہ بناتے ہیں۔ ﴿وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ﴾ یہ ان کا دوسرا وصف ہے۔ گویا تلاوت کے ساتھ قرآن پر ان کا عمل بھی ہے۔ جس کا اوّلین تقاضا نماز ہے۔ جس کا حکم قرآنِ پاک میں کم وبیش اسّی بار آیا ہے۔ ’’اقامۃ صلاۃ‘‘ کے معنی صرف نماز پڑھنا اور اس کی ظاہری ہیئت کا ادا کرنا ہی نہیں بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ خشوع وخضوع سے ادا کرنا ادا کرنا اور اس پر مداومت اور قائم رہنا مراد ہے۔ قرآنِ پاک ہی میں یہی ’’اقاموا‘‘ کا لفظ اہلِ کتاب کے حوالے سے بھی آیا ہے کہ ﴿وَ لَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْ ٰرۃَ وَ الْاِنجِیْلَ ﴾ [2] ’’اگر وہ واقعی تورات اور انجیل کو قائم رکھتے، ان کی پابندی کرتے۔‘‘ اس کے ایک آیت بعد فرمایا: ﴿قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰاۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ ﴾ [3] ’’کہہ دے اے اہلِ کتاب! تم کسی چیز پر نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل کو قائم کرو۔‘‘ یعنی اس کی پابندی کرو اور اس پر عمل کرو۔
[1] الجمعۃ :2. [2] المائدۃ : 66. [3] المائدۃ : 68.