کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 232
خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاط رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُط ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ ﴾[1] (البینۃ:۸)
’’ان کا بدلہ ان کے ربّ کے ہاں ہمیشہ کے باغات ہیں، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہ اس کے لیے ہے جو اپنے ربّ سے ڈر گیا۔‘‘
یہی اللہ سے ڈرنے والے علماء ہیں جو اللہ کے عبادت گزار ہیں۔
﴿اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ ٰانَآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ ﴾ [2]
’’(کیا یہ بہتر ہے) یا وہ جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے ربّ کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔ کہہ دے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے! نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔‘‘
یہ ہے علم رکھنے والوں کا طرز عمل۔ اور جو علم سے بے خبر ہیں وہی شرک میں مبتلا اور آخرت سے بے خوف ہیں۔
﴿ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ﴾ اللہ سب پر غالب ہے۔ اللہ جب چاہے جسے چاہے پکڑلے۔ اس لیے اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ وہ ’’غفور‘‘ بھی ہے جو معافی کا طلب گار ہوتا ہے اسے معاف کردیتا ہے۔ بلکہ معاف کرنا اسے پسند ہے۔ بلکہ معاف کرنے کے وصف میں تبھی کمال کا مظہر ہے کہ جب کوئی انتقام پر قدرت ہونے کے باوجود
[1] البینۃ : 8.
[2] الزمر : 9.