کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 231
۲: عالم باللہ ولیس بعالم بأمر اللہ: جسے اللہ کی معرفت ہے اس سے ڈرتا ہے مگر اللہ کے اوامر ونواہی سے بے خبر ہے۔ گویا وہ عابد ہے عالم باحکام اللہ نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرتے ہوئے بھی معرض خطر میں ہے۔ بدعات وخرافات کا دروازہ ایسے عابدوں نے ہی کھولا ہے۔
۳: عالم بأمر اللہ لیس بعالم باللہ: جو احکامِ الٰہی تو جانتا ہے مگر اللہ سے نہیں ڈرتا اور احکام کی پابندی نہیں کرتا۔ قرآن کا مطلوب عالم یہ نہیں۔ یہ شرک وبدعت کی راہ ہموار کرنے والا بن جاتا ہے۔
اسی طرح ’’علماء‘‘ سے مراد سائنس کا علم جاننے والے سائنٹسٹ نہیں۔ اگر مظاہرِ قدرت کا نظارہ کرنے کے باوجود یہ اللہ سے ڈرنے والے نہیں تو یہ عالم نہیں، بلکہ جاہل ہیں۔ اسی طرح علم کا اطلاق تو ان علوم پر بھی ہوتا ہے جو انسان کے لیے مفید ہوں۔ جیسے حساب وکتاب کا علم ہے اور دیگر فنون کا علم ہے۔ ان علوم کی اہمیت و ضرورت کا انکار نہیں۔ مگر قرآنِ پاک نے جس علم کا ذکر فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت وعظمت کا اور اللہ کے اوامر ونواہی کا علم ہے اور جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ علماء ہیں۔ باقی علم رکھتے ہوئے بھی جاہل ہیں یا علمِ نافع سے بے بہرہ ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سب سے زیادہ معرفت انبیائے کرام کو ہوتی ہے اسی لیے وہ سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’ اِنِّیْ لَأعْلَمُہُمْ بِاللّٰہِ وَاَشَدُّہُمْ لَہٗ خَشْیَۃً ‘[1]
’’بے شک مجھے ان سے زیادہ اللہ کا علم ہے اور ان سب سے زیادہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔‘‘
یہی کیفیت دیگر انبیائے کرام اور صلحاء کی تھی۔ انہی کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿جَزَآؤُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ
[1] بخاری : 6101.