کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 230
اسی طرح حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اَلْعَالِمُ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ، وَرَغِبَ فِیْمَا رَغِبَ اللّٰہُ فِیْہِ، وَزَہَدَ فِیْمَا سَخَطَ اللّٰہُ فِیْہِ[1] ’’عالم وہ ہے جو بن دیکھے اللہ سے ڈرے، جو اللہ پسند کرے اس کی طرف راغب ہوجائے اور جس سے اللہ ناراض ہو اس سے کنارہ کشی اختیار کرے۔‘‘ مزید ملاحظہ فرمائیں۔[2] اس لیے عالم وہ نہیں جو باکثرت معلومات رکھتا ہو۔ کتاب خواں اور کتاب دان ہو۔ یہود اہلِ کتاب ، ’’اہل الذکر‘‘ تھے مگر اللہ کی خشیت سے اور عمل سے عاری تھے اسی لیے فرمایا: ﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط ﴾ [3] ’’ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انہوں نے اسے نہیں اٹھایا، گدھے کی مثال کی سی ہے جو کئی کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔‘‘ انہوں نے تورات کو لفظاً لفظاً تو پڑھا مگر نہ اسے سمجھا، نہ ہی اس پر عمل کیا۔ بلکہ الٹا انہوں نے تاویل وتحریف کی راہ اختیار کی، ان کا حال گدھے سے بھی بدتر ہے۔ گدھے کو تو فہم وادراک نہیں، مگر یہ عقل وفہم رکھتے ہوئے بھی اس کو سمجھنے اور عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی طرح کتاب خوانی علم نہیں، بلکہ اس کا فہم اور اس پر عمل اصل علم ہے اور یہی علم اللہ کا خوف اور ڈر پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے اہلِ علم کہتے ہیں کہ علماء کی تین قسمیں ہیں: ۱: عالم باللہ وبامر اللہ: جسے اللہ کی معرفت اور اس کے اوامر ونواہی کا علم ہے وہی اللہ سے ڈرتا ہے اور حدود وفرائض کی پابندی کرتا ہے۔ یہ علم کا اعلیٰ درجہ ہے۔
[1] ابن کثیر : 3/730. [2] الدرار :1/ 75 ،76. [3] الجمعۃ : 5.