کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 229
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علم تو وہی ہے جو کتاب وسنت سے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمۂ سلف سے حاصل ہوتا ہے اور یہ روایت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ علم نور ہے اور اس کا فہم وادراک اور اس کے مفاہیم ومعانی کا جاننا علم ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت کا مصداق وہ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ ﴿إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ اللہ ہر شے پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اسی بنا پر تمام انبیاء وصلحاء اللہ سے ڈرتے تھے۔ ہمیشہ اللہ سے ہدایت کے طلب گار رہتے اور ہدایت پر استقامت کی دعائیں کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ’لا یُسئل عما یفعل‘ اللہ جو چاہے فیصلہ فرمائے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اِنَّ الْفَقِیْہَ حَقَّ الْفَقِیْہِ مَنْ لَمْ یُقْنِطِ النَّاسَ مَنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ، وَلَمْ یُرَخِّصْ لَہُمْ فِیْ مَعَاصِی اللّٰہِ تَعَالٰی، وَلَمْ یُؤَمِّنْہُمْ مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ، وَلَمْ یَدَعِ الْقُرْآنِ رَغْبَۃٗ عَنْہُ اِلَی غَیْرِہِ، اِنَّہٗ لَا خَیْرَ فِیْ عِبَادَۃٍ لَا عِلْمَ فِیْہِ، وَلَا عِلْمٍ لَا فِقْہَ فِیْہِ، وَلَا قِرَائَ ۃٍ لَا تَدَبُّرَ فِیْہِ[1] ’’بے شک فقیہ کامل وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور نہ انہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی رخصت دے، اور نہ انہیں اللہ کے عذاب سے کرے، اور قرآن کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کی طرف رغبت نہ کرے، اس عبادت میں کوئی خیر نہیں جو علم کے بغیر ہو، اور اس علم کا کوئی فائدہ نہیں جو بے سمجھ بوجھ کے ہو، اور اس قراء ت میں خیر نہیں جو بغیر تدبر کے ہو۔‘‘ سعد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اہلِ مدینہ میں سب سے بڑا کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔[2]
[1] قرطبی :14/ 343 ،344، دارمی : 304. [2] دارمی : 301.