کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 228
’’حالاں کہ بلاشبہ یقینا وہ جان چکے ہیں کہ جس نے اسے (جادو) خریدا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور بے شک بری ہے وہ چیز جس کے بدلے میں انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا تھا، کاش! وہ جانتے ہوتے۔‘‘ یہاں ان کے علم کے باوجود فرمایا ہے کاش وہ جانتے ہوتے۔ گویا ان کا علم، علمِ نافع نہیں۔ اسی طرح شیطان اور منکرین کا علم بھی علمِ نافع نہیں۔ علمِ نافع ہی سے خوف و خشیت حاصل ہوتی ہے۔ ملخصاً[1] مگر علامہ ابن عطیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’انما‘‘ حصر کے علاوہ اختصاص کے لیے بھی آتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے کہ خشیت علماء کا وصف ہے۔ یوں نہیں کہ جو عالم نہیں اس میں خشیت نہیں۔ علماء چوں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو صحیح معنوں میں جانتے ہیں۔ اس لیے وہ اللہ سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ ’’علماء‘‘ سے یہاں اصطلاحی علماء نہیں جو قرآن وحدیث، فقہ اور نحو وصرف وغیرہ علوم کے ماہر ہیں اور پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اور کرم کتابی ہیں بلکہ وہ علماء مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لَیْسَ الْعِلْمَ عَنْ کَثْرَۃِ الْحَدِیْثِ، وَلٰکِنَّ الْعِلْمَ عَنْ کَثْرَۃِ الْخَشِیَّۃِ[2] ’’علم کثرتِ حدیث کا نام نہیں بلکہ علم، اللہ تعالیٰ سے باکثرت ڈرنا ہے۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں: اِنَّ الْعِلْمَ لَیْسَ بِکَثْرَۃِ الرِّوَایَۃِ، وَأَمَّا الْعِلْمُ نُوْرٌ یَجْعَلُہٗ اللّٰہُ فِی الْقَلْبِ ’’علم کثرتِ روایت کا نام نہیں، بلکہ علم نور ہے، جسے اللہ دل میں ڈال دیتا ہے۔‘‘
[1] شفاء العلیل لابن قیم رحمہ اللہ. [2] ابن کثیر : 3/730، جامع بیان العلم : 2/25.