کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 227
کفارِ مکہ کے بارے میں بھی فرمایا ہے: ﴿فَاِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَٰلکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ﴾[1] ’’توبے شک وہ تجھے نہیں جھٹلاتے اور لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات ہی کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ یہ جمود یعنی حق کا انکار حق کی معرفت کے بعد ہی ہوتا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہر نوع سچا سمجھتے تھے۔ مگر ان کا تکبر وتمرد اس حقیقت کو ماننے سے مانع تھا۔ اس موضوع کی اور آیاتِ مبارکہ بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے باوجود منکرین نے انکار کیا۔ ادھر انہی منکرین کو اللہ تعالیٰ نے جاہل بھی قرار دیا ہے۔ چناں چہ فرمایا: ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ ﴾ [2] ’’درگزر اختیار کر اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کر۔‘‘ عباد الرحمن کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ﴿وَ اِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ﴾[3] ’’کہ جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔‘‘ یعنی سلام کہہ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ ان آیات میں انہی منکرین کو جاہل بھی قرا ردیا گیا ہے، جو جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور یہ کبھی غلط بات نہیں کہتے۔ اس کے باوجود اللہ نے انہیں جاہل کہا ہے۔ اس لیے کہ ان کا علم، علمِ نافع نہیں تھا جیسے حسبِ ذیل آیت میں جادوگروں کے بارے میں علم اور عدمِ علم دونوں کا ذکر کیا ہے: ﴿وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ﴾ [4]
[1] الانعام : 33. [2] الأعراف : 199. [3] الفرقان : 63. [4] البقرۃ : 102.