کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 226
﴿اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ﴾ جس طرح ثمرات میں ،پہاڑوں میں، انسانوں اور حیوانوں میں فرق ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ڈرنے میں بھی انسان مختلف ہیں۔ اللہ سے وہی ڈرتا ہے جسے اللہ کی معرفت حاصل ہے۔ جو اللہ کی عظمت وسطوت کو، اس کی کبریائی، اس کی جباری وقہاری کو، اس کی قدرت کو اور اس کے علم کو سمجھتا ہے۔ گویا جو عالم باللہ ہے وہی اللہ سے ڈرنے والا ہے۔
’’انما‘‘ عربی زبان میں کلمۂ حصر ہے اور یہ حصر طرفین میں ہے۔ یعنی صرف علماء ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ اور عالم وہی ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ علم نہیں تو خوف وخشیت نہیں، اسی طرح خوف وخشیت نہیں تو علم نہیں۔ یہاں علم سے علمِ نافع مراد ہے، جس سے خشیت وخوف آتا ہے۔ ورنہ علم تو شیطان کو بھی تھا۔ انبیائے کرام کے منکرین ان کی سچائی کو سمجھتے تھے۔ مگر تکبر وتمرد کی وجہ سے انکار کرتے تھے۔ جیسے قومِ فرعون کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿وَ جَحَدُوْا بِہَا وَ اسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّاط فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ [1]
’’اور انہوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کردیا، حالاں کہ ان کے دل ان کا اچھی طرح یقین کرچکے تھے۔‘‘
یہودیوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ [2]
’’اے اہلِ کتاب تم کیوں حق کو باطل سے خلط ملط کرتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو، حالاں کہ تم جانتے ہو۔‘‘
[1] النمل : 14.
[2] آلِ عمران : 71.