کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 225
مختلف ڈیزائن برآمد ہورہے ہیں۔ یہی صورت دیگر جانوروں اور چوپایوں میں ہے۔ جو دلیل ہے کہ اس کائنات کو بنانے والا بے نظیر خلاَّق ہے۔ جو ایک ہی نمونہ لے کر نہیں بیٹھا بلکہ اس کے پاس ہر ایک چیز کے نئے سے نئے اور بے شمار ڈیزائن ہیں۔
انسانوں اور جانوروں میں یہ اختلافِ الوان، ظاہری رنگوں ہی میں نہیں بلکہ ان کی عادات میں، خصلتوں میں بھی ہے۔ گویا صورتوں میں ہی نہیں سیرتوں میں بھی اختلاف ہے۔ ’’کذلک‘‘ کے بعد جمہور کے نزدیک وقف ہے۔ الصحاح میں ہے کہ اس کا اطلاق گدھے کی پیٹھ پر مختلف رنگوں کی دھاریوں پر ہوتا ہے اور یہاں اس کا تعلق پہلے جملے سے ہے۔ کہ اسی طرح انسانوں اور حیوانوں کو مختلف رنگوں اور صورتوں میں بنایا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت کی دلیل ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿ وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآئٍ وَّاحِدٍ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَا ٰایٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ﴾[1]
’’اور زمین ایک دوسرے سے ملے مختلف ہوئے ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتی اور کھجور کے درخت کئی تنوں والے اور ایک تنے والے، جنہیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور ہم ان میں بعض کو پھل میں بعضپر فوقیت دیتے ہیں، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔‘‘
ایک ہی پانی سے سیراب ہونے والے پودوں اور درختوں اور ان کے پھلوں میں یوں اختلاف منہ بول کے کہہ رہا ہے کہ ان کے پیچھے قادر مطلق کا ہاتھ ہے۔
[1] الرعد : 4.