کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 224
ہیں۔ کبھی سبز، کبھی سرخ اور کبھی سفید۔ ﴿وَ مِنَ الْجِبَالِ﴾ یہ تنوع زمین سے نکلنے والے پودوں میں ہی نہیں۔ جمادات کو دیکھو وہاں بھی اللہ کی یہ قدرت کار فرما ہے۔ بعض وہ ہیں جو سفید اور سرخ ہیں۔ بعض وہ ہیں جو سخت سیاہ ہیں۔ ﴿جُدَدٌ بِیْضٌ﴾ جُدَدٌ کا واحد ’’جدۃ‘‘ ہے جس کے معنی قطعے وحصے، ٹکڑے اور کھلے راستے کے ہیں۔ اس سے مراد وہ دھاریاں ہیں جو پہاڑوں میں سفید، سرخ، اور مختلف رنگوں میں ہوتی ہیں۔ ﴿غَرَابِیْبُ سُوْدٌ﴾ بعض نے کہا ہے غرابیب کا واحد ’’غِرْبیب‘‘ ہے اور اس کے معنی کوے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں۔ (مفردات) اور سخت سیاہ رنگ میں چونکہ اور کوئی رنگ ظاہر نہیں ہوتا، اس لیے اسے مختلف رنگوں سے تعبیر نہیں کیا گیا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراد ’’جدد بیض‘‘، ’’جدد حمر‘‘، ’’جدد غرابیب سود‘‘ مراد ہو۔ یعنی ان میں سفید دھاریاں، سرخ دھاریاں اور سیاہ دھاریاں ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی قطعہ سفید پہاڑوں کا کوئی سرخ اور کوئی سیاہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہاں ﴿حُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا﴾ میں یہ تعبیر بھی ہوسکتی ہے کہ اصل رنگ تو سفید اور سیاہ ہیں۔ باقی سرخ اور مختلف رنگ ان دونوں کے مختلف درجات کے مرکب سے بنتے ہیں۔ یہاں ’’مختلف‘‘ بطورِ صفت ہے۔ جس میں اشارہ ہے کہ پہاڑوں کے جو رنگ ہیں وہ عموماً قائم رہتے ہیں۔ ﴿وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ﴾ یہ تنوع انسانوں، جانوروں اور چوپایوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ انسان ہی کو دیکھو ان کے قد کاٹھ میں، رنگوں میں فرق ہے کچھ سرخ، کچھ سفید، کچھ سیاہ، کچھ سانولے ہیں۔ حتی کہ ایک ماں باپ کی اولاد میں یہ فرق پایا جاتا ہے۔ نطفہ ایک مرد کا ہے۔ رحمِ مادر بھی ایک ہے۔ مگر نتائج وساخت مختلف ہیں۔ دنیا کی مصنوعات کی طرف دیکھیں، جب تلک سانچہ ایک رہتا ہے، ڈیزائن ایک ہی تیار ہوتا ہے مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یہ صناعی اور کاری گری ہے کہ ایک ہی سانچے سے