کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 223
ہیں، مگر بارش نہیں برستی، پھر اس کے برسنے میں بھی تفاوت ہے۔ کہیں کم کہیں زیادہ۔ یہی رؤیتِ قلبی اور بصیرت ہی بصارت کھول دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اقرار کیے بغیر بات نہیں بنتی۔ ﴿ السَّمَآئَ﴾ یعنی آسمان یہ دراصل ’’سماء‘‘ سے ہے بعض نے کہا ہے کہ ہرسماء اپنے ماتحت کے اعتبارسے ہے ’’سماء‘‘ ہے بارش بھی اوپر سے برستی ہے اس لیے کہا گیا ہے آسمان سے بارش برستی ہے مگر اس سے مراد اوپر بادلوں سے بارش برسنا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوہُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ ﴾[1] ’’کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم ہی اتارنے والے ہیں۔‘‘ بارش چونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے ہر جگہ ایک مقدار کے مطابق برستی ہے[2] اس لیے درحقیقت اس کے فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں اس اعتبار سے بھی بارش کی نسبت آسمان کی طرف کی گئی ہے۔ ﴿ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ﴾ پھر اس بارش سے ہم مختلف رنگوں کے ثمرات نکالتے ہیں۔ کوئی احمق کہہ سکتا ہے کہ بارش کا اوپر سے آنا تو طبعی ہے، اوپر کی چیز نیچے ہی آتی ہے۔ لیکن ہمیں بتلاؤ کہ کیا زمین سے نرم ونازک کونپلوں کا نکلنا بھی طبعی ہے؟ جیسے بارش ہم برساتے ہیں۔ اسی طرح یہ انگوریاں زمین کی تہہ سے بھی ہم ہی نکالتے ہیں۔ پانی ایک ہے زمین ایک ہے۔ مگر اس سے نکلنے والے پودوں میں سے ہر ایک کی رنگت مختلف ہے، شکلیں مختلف ہیں، خوشبوئیں مختلف ہیں۔ حتی کہ ایک نوع مثلاً گلاب، کی مختلف قسمیں ہیں ان کی خوشبوئیں مختلف ہیں۔ یہی صورت پھلوں کی ہے۔ ہر جنس کی کئی کئی قسمیں ہیں۔ ان کی تاثیر ان کے رنگ ڈھنگ اور ذائقے مختلف ہیں۔ یہاں ’’مختلفا الوانہا‘‘ میں ثمرات کا اختلاف ترکیب میں حال واقع ہوا ہے، جس میں اشارہ ہے کہ ثمرات کا یہ اختلاف بدلتا رہتا ہے اور ان کے رنگ بھی بدلتے رہتے
[1] الواقعہ : 69. [2] المؤمنون: 18.