کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 222
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہَا وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ م بِیْضٌ وَّ حُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَ غَرَابِیْبُ سُوْدٌ وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ کَذٰلِکَ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ ﴾ (فاطر:۲۷ ،۲۸) ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ کئی پھل نکالے، جن کے رنگ مختلف ہیں اور پہاڑوں میں سے کچھ سفید اور سرخ قطعے ہیں، جن کے رنگ مختلف ہیں اور کچھ سخت کالے سیاہ ہیں۔ اور کچھ لوگوں اور جانوروں اور چوپاؤں میں سے بھی ہیں جن کے رنگ اسی طرح مختلف ہیں، اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں، بے شک اللہ سب پر غالب، بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘ ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توحید اور قدرتِ کاملہ کا بیان ہے اور ہر انسان اس کا مخاطب ہے کہ ﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ﴾ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ یہ استفہام تقریری ہے جو بالکل کسی ظاہر وباہر بات کے لیے ہوتا ہے، اور ’ اَلَمْ تَرَ‘ کے معنی ’اَلَمْ تَعْلَمْ‘ بھی ہیں کہ کیا تم نے نہیں جانا اور اس سے مراد رؤیتِ قلبی بھی ہے۔ کیوں کہ رؤیتِ قلبی ہی رؤیتِ بصری کی دلیل بنتی ہے۔ بارش کو تو ہر ایک اوپر سے نازل ہوتا دیکھتا ہے۔ مگر یہ بادل کہاں سے آتے ہیں، بسا اوقات بادل آتے