کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 22
۳: کسی کی تعریف کے لیے ’’مدح‘‘ کا لفظ بھی بولا جاتا ہے۔ مگر مدح میں ممدوح کی خوبیوں کا اختیاری اور ارادی طور پر ہونا ضروری نہیں۔ یہ اختیاری اور غیر اختیاری دونوں پر بولا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ مدح کا لفظ حمد سے مقلوب ہے اور یہ دونوں مترادف ہیں۔ مگر انسان کے لیے حمد کا نہیں بلکہ مدح کا لفظ بولا جاتا ہے۔ علامہ راغب رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا ہے کہ ہر شکر، حمد ہے مگر ہر حمد، شکر نہیں۔ اسی طرح ہر حمد، مدح تو ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے۔ [1]
’’الحمد‘‘ کے بارے میں ایک بڑی لطیف بات حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہی ہے۔ لکھتے ہیں:
’إخْبَارُ عَنْ مَحَاسِنِ الْمَحْمُوْدِ مَعَ حُبَّہٖ وَإجْلَالِہٖ وَتَعْظِیْمِہٖ۔[2]
’’محمود کے محاسن کا ذکر اس کی محبت، اس کی عظمت وجلال اور اس کی تعظیم وتکریم کے ساتھ۔‘‘
جس سے قلب وروح جھوم جائیں اور دل کی گہرائیوں کی زبان ترجمان بن جائے حقیقتاً یہی حمد مقصود ومطلوب ہے کہ انسان دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کے جلال وجمال کا تصور کرتے ہوئے الحمد للہ کہے۔
۴: یہ ’’الحمد‘‘ اوّل وآخر صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لیے سزاوار ہے۔ ابتدائے آفرینش کے موقع پر فرمایا:
﴿الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُوْنَ ﴾ [3]
’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا، پھر (بھی) وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا،
[1] مفردات القرآن.
[2] بدائع الفوائد: 2/93.
[3] الأنعام: 1.