کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 219
﴿وَ اِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ جَآئَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ ثُمَّ اَخَذْتُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ ﴾ (فاطر:۲۵،۲۶)
’’اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو بے شک ان لوگوں نے (بھی) جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے، ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ صحیفوں کے ساتھ اور روشنی کرنے والی کتاب کے ساتھ آئے۔ پھر میں نے ان لوگوں کو پکڑ لیا جنھوں نے کفر کیا، تو میرا عذاب کیسا تھا؟‘‘
سابقہ آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا اجمالاً ذکر ہے یہاں اس کی تفصیل ہے کہ یہ لوگ جو آپ کی تکذیب کررہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، اِن سے پہلے بھی جو لوگ ہوئے ہیں انھوں نے بھی اپنے انبیائے کرام کی تکذیب کی، یوں نہیں کہ یہ سلوک صرف آپ سے ہورہا ہے۔ جیسے آپ ان کے پاس کھلے دلائل، کتاب مبین لے کر آئے ہیں۔ اسی طرح پہلے رسول بھی دلائل وبراہین لے کر آئے، صحائف اور کتاب منیر ان کے پاس بھی تھی مگر اس کے باوجود ان کے مخاطبین نے ان کی تکذیب کی، اس لیے آپ پریشان نہ ہوں نہ آپ نے انہیں سمجھانے میں کوئی کمی کی ہے نہ ہی دلائل وبراہین کی کوئی کمی ہے۔
﴿بَیِّنَاتِ ﴾ سے مراد معجزات ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لیے روشن دلائل ہیں۔
﴿اَلزُّبُر ﴾ سے وہ صحائف اور کتابیں مراد ہیں جو مواعظ وحکم اور تنبیہات پر مشتمل ہیں۔ حضرت داود علیہ السلام کی کتاب زبور بھی حِکم ومواعظ پر مشتمل تھی اس میں کوئی تشریعی حکم نہیں تھا۔ اور ﴿اَلْکِتٰبِ ﴾ اس کو کہا جاتا ہے جو احکام وحِکم دونوں پر