کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 218
جانوروں میں نبی ہونے کا قول صرف ابن عربی اور ان کے متبعین کا ہے۔ اور بعض کتابوں میں، میں نے دیکھا ہے کہ یہ قول کفر ہے۔[1] مگر ابن عربی سے بہت پہلے امام ماتریدی (المتوفی ۳۳۳ھ) نے بھی تفسیر، میں ’قال بعضہم‘ کہہ کر یہ قول ذکر کیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا: ﴿اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ ﴾[2] ’’تو صرف تم ایک ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے ایک راستہ بتلانے والا ہے۔‘‘ یہاں موقعہ کی مناسبت سے انبیائے کرام کی صفت ’’نذیر‘‘ ہی بیان ہوئی ہے کیوں کہ اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اسی صفت کا ذکر ہے۔ اور متمردین اپنی چودھراہٹ کے گھمنڈ میں یہی کہتے تھے: ﴿وَعَجِبُوْآ اَنْ جَآئَہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ ز ﴾ [3] ’’اور انھوں نے اس پر تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا آیا ۔‘‘ نیز دیکھیے، سورۃ ق:۲۔ گویا ان کے انکار کی ایک وجہ انہی میں سے رسول کا ہونا اور دوسری وجہ یہ کہ ہمیں یہ ڈرانے والا کون ہے؟ اس لیے فرمایا: کہ آپ نذیر ہیں بلکہ ہر امت میں ہم نے نذیر بھیجا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر رسول چوں کہ مبشر ومنذر ہوتا ہے جیسے فرمایا: ﴿وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ ﴾ اس لیے ایک وصف کے ذکر کو دوسرا وصف بھی مستلزم ہے۔
[1] روح المعانی، ج:۲۲، ص:۱۷۳. [2] تفسیر : 2/482. [3] الرعد : 7 ص : 4.