کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 217
خوف وخطر پایا جائے۔ خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ذوالجلال والاکرام کی نافرمانی سے اور اس کے نتیجے میں اللہ کے عذاب سے ڈراتے اور خبردار کرتے تھے۔
﴿وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ ﴾ اس میں ایک تو آپ کی تسلی وتشفی کا پہلو ہے کہ آپ کی طرح ہر امت میں ہم نے ڈرانے والا بھیجا، اور امتوں نے ان سے ویسا ہی سلوک کیا جو کفارِ مکہ کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ دل برداشتہ نہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو پہلی امتوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ دوسرا پہلو، کفارِ مکہ کی مناسبت سے ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کا انکار کرتے تھے۔ کہ ہمارا یہی رسول نہیں، بلکہ ان سے پہلے ہر امت کے پاس ہم نے رسول بھیجا ہے۔ یہی بات اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کئی مقامات پر فرمائی ہے۔
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ﴾ [1]
’’اور بلاشبہ یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔‘‘
ان آیات میں ’’امت‘‘ کے لفظ سے بعض نے یہ سمجھا ہے کہ مخلوق کی ہر نوع امت ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَ مَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طئِرٍآٰا یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّاآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ ﴾ [2]
’’اور زمین میں نہ کوئی چلنے والا ہے اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمہاری طرح امتیں ہیں۔‘‘
اس لیے تمام مخلوقات میں نبی ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے تو کہا ہے کہ
[1] النحل : 36.
[2] الانعام : 38.