کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 214
اللہ نے اپنی کتاب کی آیات کا فہم سلب کرلیا ہے،اس کے سننے اور سمجھنے کی قدرت نہیں دے سکتے۔‘‘
امام ابن جریر نے یہاں بہروں سے مطلق سماع کی نفی کا ذکر کیا ہے، سماعِ نافع کا یہاں تو تصور ہی نہیں، بالکل اسی طرح پہلے جملے میں بھی میت سے مطلق سماع کی نفی مراد ہے۔ امام ابن جریر نے اس کی تائید میں امام قتادہ کا قول ذکر کیا ہے کہ
’ ہَذَا مَثَلٌ ضَرَبَہُ اللّٰہُ لِلْکَافِرِ، فَکَمَا لَا یَسْمَعُ الْمَیِّتُ الدُّعِّائَ کَذَلِکَ لَا یَسْمَعُ الْکَافِرُ، ﴿وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ﴾ یَقُوْلُ: لَوْ اَنَّ اَصُمَّ وَلیَّ مُدْبِراً ثُمَّ نَادَیْتَہٗ لَمْ یَسْمَعْ، کَذَلِکَ الْکَافِر لَا یَسْمَعُ وَلَا یَنْتَفِعُ بِمَا سَمِعَ ‘[1]
’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ کافر کی مثال دی ہے کہ جیسے میت پکار نہیں سنتی اسی طرح کافر نہیں سنتا اور ﴿وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ﴾ میں فرمایا: اگر بہرا پیٹھ پھیر کر پلٹ جائے پھر تم اسے آواز دو تو وہ نہیں سنتا۔ اسی طرح کافر نہیں سنتا اور جو سنتا ہے اس کا اسے فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘
امام ابن جریر رحمہ اللہ اور امام قتادہ رحمہ اللہ کی اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ میت اور بہرے سے مطلقاً سماع کی نفی ہے ان سے کافر کو تشبیہ دی گئی ہے اور اس سے سماعِ نافع کی نفی مراد ہے۔ ان آیات سے میت کے سماع کی نفی سیّدہ صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی سمجھی ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف اور دیگر احادیث کی کتابوں میں ہے: اللہ تعالیٰ تو جسے چاہیں سنا دیں۔احادیث میں جزواً بعض مواقع پر میت کے سننے کا ذکر آیا ہے۔ وہ اپنے محل پر درست ہے لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میت ہر وقت ہر بات سنتی ہے۔ آیت کی مناسبت سے یہ مختصراً وضاحت ہم نے کی ہے۔ سماعِ موتی کی تفصیل ہمارا موضوع نہیں۔
[1] ایضاً.