کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 211
لیے بھی روشنی کا باعث ہے۔ جب کہ کافر، گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے، خود ہی گم گشتہ راہ ہے دوسروں کی راہنمائی کیا کرے گا۔ مومن، ٹھنڈی چھاؤں ہے۔ اس کے پاس بیٹھنے سے راحت واطمینان نصیب ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ محبت کا پیکر ہے۔ جب کہ کافر تپش اور تپتی دھوپ ہے۔ جس سے تکلیف پہنچتی ہے۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ بالآخر مومن جنت کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہوگا اور کافر جہنم کی تپش میں جھلسنے والا ہوگا۔ اسی طرح مومن زندہ ہے اس میں ادراک وشعور ہے مگر کافر مردہ ہے جو شعور سے محروم ہے۔ جس طرح قبروں میں مردوں کو آپ نہیں سنا سکتے اسی طرح جن کے دل مردہ ہیں ان کو بھی آپ سنا اور سمجھا نہیں سکتے۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ ﴾ اللہ جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے۔ اللہ چاہے تو پتھروں کو سنا دے مگر آپ کے اختیار میں نہیں کہ قبروں میں پڑے ہوؤں کو آپ سنا دیں۔ آپ کا کام زندوں کو سنانا ہے مردوں کو جگانا اور سنانا آپ کی ذمہ داری نہیں۔ ان مردہ دلوں سے امید کی کوئی رمق ہوتی تو انہیں سنا دیا جاتا۔ ﴿وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًالَّااَسْمَعَہُمْط وَ لَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوا وَّ ہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾ [1] ’’اور اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی جانتا تو انہیں ضرور سنوا دیتا اور اگر وہ انہیں سنوا دیتا تو بھی وہ منہ پھیر جاتے، اس حال میں کہ وہ بے رخی کرنے والے ہوتے۔‘‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ﴿اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ﴾ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کو نافرمانی کے نتیجے سے خبردار کردیں۔ آپ کی یہ ذمہ داری تو نہیں کہ آپ لوگوں سے منوائیں اور
[1] الانفال : 23.