کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 21
﴿اِعْمَلُوْا ٰالَ دَاوٗدَ شُکْرًا وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ﴾ [1]
’’اے داؤد کے گھر والو! شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو، اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے شکر گزار ہیں۔‘‘
حضرت ثابت البنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اہلِ خانہ کے لیے اوقات کو تقسیم کردیا تھا یوں ہر وقت گھر میں نماز پڑھے جانے کا اہتمام تھا۔ [2]
سیّدِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تہجد میں اتنا لمبا قیام کرتے کہ پاؤں مبارک پر ورم آجاتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض کرتیں کہ آپ اتنی زحمت کیوں اٹھاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے پہلے پچھلے سب گناہ معاف کردئیے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا:
أفَلَا اَکُوْنُ عَبْداً شَکُوْرًا[3]
’’کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘
یہی روایت صحیح بخاری ۱۱۳۰ میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَ کُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ ﴾ [4]
’’بلکہ اللہ ہی کی پھر عبادت کراور شکر کرنے والوں سے ہوجا۔‘‘
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان کے جسم میں ہر جوڑ پر صدقہ ہے، ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تحمید وتہلیل صدقہ ہے اور ان کے لیے چاشت کی دو رکعتیں کافی ہیں۔‘‘ [5] سجدہ عبادت ہے اور سجدۂ شکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی کے موقع پر کرتے تھے۔ اس لیے شکر صرف زبان سے نہیں دل واعضاء سے شکر کی بجا آوری شکر کو مستلزم ہے۔
[1] سبا: 13.
[2] ابن کثیر: 3/298.
[3] صحیح بخاری: 4837.
[4] الزمر: 66.
[5] صحیح مسلم: 1271.