کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 209
’’بے شک تو نہ مردوں کو سناتا ہے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سناتا ہے، جب وہ پیٹھ پھیر کر پلٹ جائیں، اور نہ تو کبھی اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لانے والا ہے، تو نہیں سنائے گامگر انہی کو جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں، پھر وہ فرماں بردار ہیں۔‘‘ بالکل یہی بات سورۃ الروم: ۵۲، ۵۳ میں بھی فرمائی ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس تمثیل سے مراد مومن اور کافر کے مابین فرق بیان کرنا ہے اور ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی بھی ہے کہ آپ کی دعوت کو اگر یہ قبول نہیں کرتے تو اس کا سبب یہ ہے ان میں قبولیت کی استطاعت ہی نہیں۔ ﴿خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَ عَلٰٓی سَمْعِہِمْ وَ عَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ﴾[1] ’’اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ، اور ان کی نگاہوں پر ایک پردہ ہے۔‘‘ ﴿لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَہُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ ٰاذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ﴾[2] ’’ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ (ان سے) زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘ چوپائے کلام نہ سمجھنے کے باوجود مالک کی اطاعت کرتے ہیں مگر یہ کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں یا یہ کہ چوپائے اپنی طبعی فطرت کے مطابق عمل کرتے ہیں برعکس کفار کے کہ اللہ نے انہیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر یہ اللہ کی ناشکری کرتے ہیں اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہی کے بارے میں فرمایا ہے:
[1] البقرۃ : 7. [2] الاعراف : 179.