کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 208
والے کی طرح ہے، کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں،توکیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘
یہاں بھی بصیر، نور، ظل اور احیاء سے مومن مراد ہیں اور اعمی، ظلمت، حرور اور اموات سے کفار مراد ہیں۔ جیسے یہ مختلف اور متباین اشیاء باہم برابر نہیں ان میں فرق بالکل ظاہر ہے۔ اسی طرح مومن اور کافر برابر نہیں، مومن اللہ کی آیات سنتا اور ان پر کان دھرتا ہے، اور نورِ ہدایت دیکھ کر اس کی تابعداری کرتا ہے۔ جبکہ کافر اندھا بہرا ہے اندھیرے میں سرگرداں ہے۔ جیسے ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُا وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾[1]
’’اور کیا وہ شخض جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایسی روشنی بنا دی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، اس شخص کی طرح ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں ہے، ان سے کسی صورت نکلنے والا نہیں، اسی طرح کافروں کے لیے وہ عمل خوش نما بنا دیے گئے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
یہاں بھی ’مَیْتًا‘ سے مراد کافر ہے جسے نورِ ایمان سے بہرور فرما دیا گیا۔ اسی ایمان کو ’’فَاَحْیَیْنٰـہُ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ’’ظلمت‘‘ سے مراد کفر کے اندھیرے ہیں اسی طرح سورۃ النمل میں ہے:
﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ وَ مَآ اَنْتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِہِمْط اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾ [2]
[1] الانعام : 122.
[2] النمل : 80 ،81.