کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 204
نیک عمل کا اہتمام کرنا چاہتا ہے تو اس کا اوّلین ذریعہ نماز ہے، جو فواحش ومنکرات سے بچاتی ہے، توحید پر قائم رکھتی ہے اور عملِ صالح کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔ اور ’’جو پاک ہوا وہ اپنے لیے پاک ہوا‘‘، اس کا فائدہ اور اجر اسی کو ملے گا۔ جیسے گناہ کا بوجھ گناہگار پر ہے۔ اسی طرح نیکی کا ثمرہ بھی پرہیزگار کو ہی ملے گا۔ جیسے فرمایا:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَ ذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی ﴾ [1]
’’بے شک وہ کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا۔ اور اس نے اپنے ربّ کا نام یاد کیا، پس نماز پڑھی۔‘‘
یعنی شرک وکفر اور معصیت کو چھوڑ کر ایمان کی راہ اختیار کرلی، اللہ کو یاد کیا اور نماز کا اہتمام کیا۔ اسی طرح فرمایا:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا ﴾ [2]
’’یقینا وہ کامیاب ہوگیا، جس نے اسے پاک کرلیا۔ اور یقینا وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے مٹی میں دبا دیا۔‘‘
اس آیت میں دو احتمال ہیں ایک تو وہی جو سورۃالاعلیٰ میں بیان ہوا ہے۔ کہ وہ کامیاب ہوگیا، جس نے اللہ کی معصیت سے بچ کر اطاعت کی راہ اختیار کی اور جس نے نافرمانی کی راہ لی وہ معصیت میں دب کے رہ گیا۔
دوسرا یہ کہ وہ فلاح پاگیا، جس کو اللہ نے پاک کردیا چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکھلاتے تھے اور ہم تمہیں یہ سکھلاتے ہیں:
’اَللَّہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَالْھَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، اَللَّہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا، وَزَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکّٰہَا، اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا، اَللَّہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ
[1] الاعلٰی : 14 ،15.
[2] الشمس : 9 ،10.