کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 203
’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو!یقینا اللہ تمھیں شکار میں سے کسی چیز کے ساتھ ضرورآزمائے گا جس پر تمھارے ہاتھ اور نیزے پہنچنے ہوں گے تا کہ اللہ جان لے کہ کون ہے اسے بن دیکھے ڈرنا ہے۔‘‘
اس حوالے سے سورۃ ق کی آیت نمبر۳۳، ۴۵ کے تحت جو کچھ ہم لکھ چکے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
﴿وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ﴾ یہ اوّلین تقاضا ہے کہ اللہ سے جو غیب میں ڈرتا ہے وہ نماز کا اہتمام کرتا ہے، جو نماز سے بے پروا ہے وہ اللہ سے نہیں ڈرتا۔ اگرچہ وہ زبانی اس کا کتنا ہی دعویٰ کرے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کے فرمان ﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتْوَا وَقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃ﴾ سے وہ لوگ مراد ہیں جو چوری کرتے، زنا کرتے اور شراب پیتے ہیں اور وہ اللہ سے بھی ڈرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
’ لَا یَابِنْتَ الصِّدّیْقِ، وَلَکِنَّہٗ الَّذِیْ یُصَلِّیْ وَیَصُوْمُ وَیَتَصَدَّقْ وَہُوَ یَخَافُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ ‘[1]
’’نہیں اے ابوبکر صدیق کی بیٹی! بلکہ وہ مراد ہے جو نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، صدقہ کرتا ہے اور اللہ جل جلالہ سے ڈرتا ہے۔‘‘
اس لیے خالی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا دعویٰ محض زبانی جمع خرچ ہے۔ یہاں ﴿الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ﴾ بمنزلہ ایمان کے ہے اور ’’نماز‘‘ میں عملِ صالح کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کا ڈرانا انہی کے لیے مفید ہے، جن کے دل اللہ کی خشیت سے لبریز اور عملِ صالح کے زیور سے آراستہ ہیں۔
﴿وَ مَنْ تَزَکّٰی ﴾ جو پاک ہوتا ہے، شرک سے، فواحش سے، معاصی سے اور
[1] ترمذی : 3175، مسند احمد :6/ 159 ،205.