کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 20
کوئی عالم ہے تو علم اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہے۔ اگر کوئی طبیب یا، خوب صورت ہے، حسنِ صوت یا لحن داؤدی سے متصف ہے، مال دار یا امیر وحاکم ہے یہ سب اوصاف وکمالات اللہ تعالیٰ ہی کے عطا کردہ ہیں۔ ﴿قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾[1] ’’کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ اس لیے ہر قسم کی حمد وتعریف کا حقیقی طور پر سزاوار اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ اس لیے ’’الحمد للہ‘‘ کے معنی سب تعریف نہیں بلکہ سب تعریفیں ہی زیادہ صحیح ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ دعائے ماثورہ کا یہی مفہوم ہے: اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلُّہٗ، وَإلَیْکَ یَرْجِعُ الْأمْرُ کُلُّہٗ[2] ’’اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، اور تمام معاملات تیرے پاس لوٹتے ہیں۔‘‘ ۲: ’’حمد‘‘ کے معنی شکر بھی ہیں، مگر یہ معنی عموماً کسی متعین نعمت کے تناظر میں ہوتے ہیں۔ قرآنِ پاک اور ادعیۂ مسنونہ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ حمد کے بارے میں علماء نے کہا ہے کہ یہ زبان سے ہوتی ہے جبکہ شکر زبان، قلب اور اعضاء سے بھی ہوتا ہے۔ حضرت داود علیہ السلام اور ان کی اولاد کو جن انعامات وکرامات سے نوازا گیا تھا، اسی تناظر میں انہیں فرمایا گیا:
[1] آلِ عمران: 26. [2] بیہقی، صحیح الترغیب: 1576.