کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 199
’’جو بھی گناہ کرے گا اس کا بوجھ اسی پر ہوگا، باپ اپنا گناہ بیٹے پر، اور بیٹا اپنے باپ پر نہیں رکھے گا۔‘‘ یعنی کوئی بھی کسی دوسرے کا گناہ اپنے سر پر لے کر اس کو بچا نہیں سکے گا۔ شفاعت کا مسئلہ اس سے علیحدہ ہے۔ اور وہ بھی وہی کرے گا جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ شفاعت کی اجازت دے گا۔ ایک اور مقام پر اسی حقیقت کو یوں بیان فرمایا: ﴿وَ لا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا یُّبَصَّرُوْنَہُمْط یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍم بِبَنِیْہِ وَ صَاحِبَتِہٖ وَ اَخِیْہِ وَ فَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤیْہِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ﴾[1] ’’اور کوئی دلی دوست کسی دلی دوست کو نہیں پوچھے گا، حالاں کہ وہ انھیں دکھائے جا رہے ہوں گے، مجرم چاہے گا، کاش کہ اس دن کے عذاب سے (بچنے کے لیے) فدیہ میں دے دے اپنے بیٹوں کو اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو، اور اپنے خاندان کو، جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔ اور ان تمام لوگوں کو جو زمین میں ہیں، پھر اپنے آپ کو بچا لے۔‘‘ ہرگز ایسا نہیں ہوگا کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور بلانے اور مدد کے لیے پکارنے کے باوجود کوئی اس کی طرف نظرِ التفات نہیں کرے گا اگرچہ کوئی کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہوگا یہ کفار آج تو کہتے ہیں کہ ہم بوجھ اٹھا لیں گے، مگر قیامت کے روز معاملہ اس کے برعکس ہوگا جو دوسروں کو گمراہ کرتے رہے ان کا جرم د گنا ہے۔ اس لیے انھیں تو اپنی گمراہی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا: ﴿لِیَحْمِلُوْآ اَوْزَارَہُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍط اَلَا سَآئَ مَا یَزِرُوْن ﴾ [2]
[1] المعارج : 10-14. [2] النحل : 25.