کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 198
﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖز وَ لَا مَوْلُوْدٌ ہُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَیْئًاط ﴾[1] ’’اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو اور اس دن سے ڈرو کہ نہ باپ اپنے بیٹے کے کام آئے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی ایسا ہوگا جو اپنے باپ کے کسی کام آنے والا ہو۔‘‘ ﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہِ وَ صَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ ﴾[2] ’’جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا، اور اپنی ماں اور باپ (سے) اور اپنی بیوی اور بیٹوں سے، اس دن ان میں سے ہر ایک کی ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا بنا دے گی۔‘‘ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ باپ اپنے بیٹے سے کہے گا کہ تم جانتے ہو کہ میں تیرا کیسا شفیق باپ تھا۔ وہ اقرار کرے گا کہ آپ کے بڑے احسانات ہیں، باپ کہے گا بیٹا! آج مجھے مثقال ذرّہ کے برابر نیکی چاہیے۔ میری اس سے نجات ہوجائے گی۔ بیٹا کہے گا! ابا حضور آپ نے بہت تھوڑی چیز طلب کی، اگر میں وہ آپ کو دے دوں تو مجھے ڈر ہے کہ میرا بھی یہی حال ہوجائے گا، جس سے آپ خوف زدہ ہیں، اس لیے میں آپ کو کچھ نہیں دے سکتا۔ پھر وہ اپنی بیوی سے یہی کچھ کہے گا، تو بیوی بھی وہی جواب دے گی، جو بیٹے نے دیا تھا۔ [3] حضرت عمرو بن حوص فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَا یَجْنِیْ جَانِ اِلَّا عَلَی نَفْسِہِ، لَا یَجْنِیْ وَالِدٌ عَلَی وَلَدِہِ وَلَا مَوْلُوْدٌ عَلَی وَالِدِہِ [4]
[1] لقمان : 33. [2] عبس : 34-37. [3] ابن ابی حاتم ،عبد بن حمید، الدرالمنثور: 5/248. [4] ترمذی،ابوداود وغیرہ.