کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 197
سمجھتے ہو تو ہم اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ جیسے کوئی کہہ دیتا ہے تم جو چاہو کرو ’’خونِ دو عالم میری گردن پر‘‘ یہی بات کفار کہتے تھے: ﴿وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَ لْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ط وَ مَا ہُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰہُمْ مِّنْ شَیْئٍط اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ ﴾ [1] ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے کہ تم ہمارے راستے پر چلو اور لازم ہے کہ ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں، حالاں کہ وہ ہرگز ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں، بے شک وہ یقینا جھوٹے ہیں۔‘‘ علامہ ابوحیان وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ولید بن مغیرہ کہا کرتا تھا: ’اکفروا بمحمد وعلیّ وزرکم‘ تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انکار کر دو، اس کا گناہ میرے ذمہ رہا۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ہر ایک کو اپنا اپنا بوجھ ہی اٹھانا پڑے گا۔ جس طرح دنیا میں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں ایک، دوسرے کی مدد کرتا ہے، اس کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے، یا اس کا سفارشی بن جاتا ہے، یا کسی اور حیلے بہانے سے مجرم کو چھڑوا لیتا ہے۔ شاید اسی طرح قیامت میں بھی کام بن جائے گا۔ مگر وہاں ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ ﴿وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّ لَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّ لا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ﴾ [2] ’’اور اس دن سے بچو جب نہ کوئی جان کسی جان کے کچھ کام آئے گی اورنہ اس سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ اسے کوئی سفارش نفع دے گی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔‘‘
[1] العنکبوت : 12. [2] البقرۃ : 123.