کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 152
لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ م بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ﴾ [1] ’’اور بلاشبہ یقیناہم نے انسان کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا، جو بدبودار سیاہ کیچڑ سے تھی۔ اور جنوں کو اس سے پہلے لوکی آگ سے پیدا کیا، اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بے شک میں ایک بشر کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، جو بدبودار سیاہ کیچڑ سے ہوگی۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ’’صلصال‘‘ کے معنی خشک مٹی کے کیے ہیں۔ اسی کو ایک اور مقام پر ٹھیکری کی طرح بننے والی مٹی فرمایا ہے: ﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ﴾ [2] ’’اس نے انسان بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی۔‘‘ ’’حما‘‘ سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں۔ یعنی سیاہ کیچڑ جس کے اندرخمیر کی مانند بوپیدا ہوگئی ہو۔ اس گوندھی ہوئی مٹی سے انسان کا وجود بنایا۔ جب وہ خشک ٹھیکری کی مانند ہوگیا تو اس میں روح پھونکی گئی۔ یوں ایک جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ اور یہی مٹی گوشت پوست، ہڈیوں اور اعصاب وعضلات میں تبدیل ہوگئی۔ اسے دیکھنے، سننے اور عقل وشعور سے بھی نواز دیا گیا۔ یوں نہیں کہ اس نے کسی حیوان سے ترقی کرتے ہوئے انسان کا روپ دھار لیا ہے۔ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خُلِقَتِ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ نُّوْرٍ، وَخُلِقَتِ الْجَانُّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارِ، وَخُلِقَ آَدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ[3] ’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو آگ کے شعلے سے اور آدم کو پیدا کیا گیا ہے اس سے جس سے تمہیں آگاہ کردیا گیا ہے۔‘‘
[1] الحجر : 26-28. [2] الرحمن : 14. [3] مسلم ، الصحیحہ : 459.