کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 150
کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
ہجرت سے پہلے کفار نے دارالندوہ میں انہی خفیہ تدبیروں پر غور وفکر کیا اور بالآخرابوجہل نے مشورہ دیا کہ تمام قبائل سے ایک ایک نوجوان لیا جائے، انہیں تلواریں تھما دی جائیں، یکبارگی سب حملہ کرکے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کردیں۔ یہ بنو ہاشم کس کس قبیلے سے لڑیں گے۔ اس کی تحسین وتائید ہوئی، مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکۂ مکرمہ چھوڑنے کا حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بستر مبارک پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رات سونے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے سورۃ یٰسین پڑھتے ہوئے نکلے اور مٹھی خاک کی ان کے سروں پر اچھالی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح سالم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ تشریف لے گئے۔ اس نوعیت کی خفیہ تدبیریں دیگر انبیائے کرام کے خلاف بھی ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی محفوظ رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی محفوظ رہے۔
خفیہ تدبیروں کے تحت ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن، جادوگر، شاعر، مجنون کہا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں سے غنڈہ گردی کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سنائیں تو شور وغوغا کا آرڈر چلنے لگا اور باقاعدہ فنونِ لطیفہ کا محاذ نضر بن حارث نے کھولا۔ یوں ان کے رات دن انہی منفی سرگرمیوں میں بسر ہوتے تھے۔ انہی کو خبردار کیا گیا ہے کہ ان کے لیے عذابِ شدید ہے اور ان کے تمام مکر اور تدبیریں نیست ونابود ہوجائیں گی۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیابیوں سے سرفراز فرمایا اور ان رؤسائے قریش کو قلیب بدر میں نشان عبرت بنا دیا۔