کتاب: تفسیر سورۂ فاطر - صفحہ 134
﴿وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً مُّبَارَکًا فَاَنْبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الْحَصِیْدِ وَ النَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّہَا طَلْعٌ نَّضِیْدٌ رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ وَ اَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ ﴾ [1]
’’اور ہم نے آسمان سے ایک بہت بابرکت پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ باغات اور کاٹی جانے والی کھیتی کے دانے اگائے، اور کھجوروں کے لمبے لمبے درخت، جن کے تہ بہ تہ خوشے ہیں، بندوں کو روزی دینے کے لیے اور ہم نے اس کے ساتھ ایک مردہ شہر کو زندہ کردیا، اسی طرح (قبروں سے) نکلنا ہے۔‘‘
جس طرح پانی سے ہم نے مردہ زمین کو زندگی بخشی ہے۔ اسی طرح انسان جہاں بھی دفن ہے قیامت کے دن ہمارے حکم سے جی اٹھے گا۔ حیات بعد الممات پر یہ استدلال ذرا تفصیل سے سورۃ الحج [2] میں بھی ہوا۔ اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی ضروری تفصیل آئی ہے۔
چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’ لَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیئٌ اِلّا یَبْلَی اِلّا عَظِیْماً وَاحِداً وَہُوَ عَجْبُ الذَّنْبِ وَمِنْہٗ یَرْکَبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘[3]
’’ایک ہڈی کے بغیر انسان کے تمام اجزا بوسیدہ ہوجائیں گے، اور وہ ریڑھ کی باریک ہڈی ہے اس سے انسان قیامت کے دن کھڑے ہوں گے۔‘‘
ابویعلی، حاکم اور امام ابوداود نے ’’کتاب البعث‘‘ میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا وہ ’’عجب الذنب‘‘ کیا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
[1] ق : 9-11.
[2] سورۃ الحج: 5-7.
[3] بخاری : 4935،مسلم ، ابن ماجہ وغیرہ.