کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 49
و تاخیر کن معانی پر دلالت کناں ہے؟ اس کے لیے علم نحو اور معانی بنیادی مواد فراہم کرتے ہیں۔
5۔ ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی
یعنی پوری آیت اپنے سیاق و سباق میں کیا مفہوم پیش کر رہی ہے؟ فحوائے کلام کیا ہے؟ اس مقصد کے لیے دیگر کئی علوم صرف و نحو، ادب و بلاغت اور حدیث و فقہ کی ضرورت پڑتی ہے۔
6۔ تتمات
یعنی آیات قرآن کا پس منظر، اسباب نزول اور نسخ وغیرہ۔ [1]
تجزیہ
مفسرین، ماہرین علوم القرآن اور محققین نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق علم تفسیر کی تعریف کی ہے، اکثر تعریفات لفظی طور پر مختلف ہیں، معنی و مراد کے لحاظ سے ملتی جلتی ہیں۔ بعض تعریفات میں اختصار ہے اور بعض میں تفصیل۔ بعض میں مقصد تفسیر پر زور دیا گیا ہے اور بعض میں طریقہ تفسیر و مضامین پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ علم تفسیر کی تعریف غیر ضروری امر ہے کیونکہ دیگر علوم کے برعکس اس کی مباحث طے شدہ نہیں ہیں، اس کی پہچان کے لیے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ یہ کلامِ الٰہی کی تشریح کا نام ہے۔ [2]
مقالہ نگار کی رائے میں عبدالعظیم زرقانی کی درج ذیل تعریف کو اختصار، جامعیت و مانعیت کی بناء پر بہترین تعریف قرار دیا جا سکتا ہے۔ [3]
[1] ديكهيے: علوم القرآن، تقي عثماني، ص 323-325، علوم القرآن، گوهر رحمان، 2/214-216
[2] التفسير والمفسرون للذهبي، 1/13
[3] عرب دنیا کے ماہر علوم القرآن جناب خالد عثمان السبت، پاکستان کے معروف بزرگ، ماہر علوم القرآن مولانا گوہر رحمان نے بھی اس تعریف کو سب سے بہتر جامع، مانع قرار دیا ہے۔ دیکھئے: قواعد التفسير جمعاً ودراسة، 29/1، علوم القرآن، گوهر رحمان، 2/216