کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 47
سے کتاب کے معانی و مفاہیم کی تشریح کی جاتی ہے اور اس کے احکام و مسائل اور حکمتوں کا استنباط کیا جاتا ہے۔
اس تعریف کے مطابق علم تفسیر وہ علم ہے جس میں یہ چار خصوصیات پائی جاتی ہوں۔
(1) قرآن مجید کا عمومی فہم حاصل ہو۔
(2) قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تشریح ہو۔
(3) قرآنی احکام و مسائل کا استنباط ہو۔
(4) معانی قرآن کے حکم و مصالح آشکارا ہوں۔
مفسر قرآن ابو حیان الاندلسی کی تعریف
’’ التفسير علم يبحث فيه عن كيفية النطق بألفاظ القرآن ومدلولاتها وأحكامها الإفرادية والتركيبية ومعانيها التي تحمل عليها حالة التركيب وتتمات لذلك‘‘ [1]
’’علم تفسیر‘‘ وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کی ادائیگی کی کیفیت، ان کے معانی و مفاہیم، ان کے افرادی و ترکیبی احکام زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ نیز ان معانی و مطالب پر بحث کی جاتی ہے جو ترکیبی حالت میں ان الفاظ سے مراد ہوتے ہیں۔ ان کے تکمیلی پہلو بھی زیربحث لائے جاتے ہیں۔
یہ تعریف اس لحاظ سے بہت جامع ہے کہ علم تفسیر نے اپنی مدون شکل میں جو ارتقائی مراحل طے کیے اور جو جو علوم اس کی خدمت کے لیے شامل ہوتے گئے۔ اس تعریف میں
[1] البحر المحيط 13/1-14، یہ تعریف بنیادی طور پر امام ابو حیان الاندلسی متوفی 754 ہجری کی ہے۔ ان سے علامہ محمود آلوسی بغدادی متوفی 1304 ہجری نے اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں درج کی۔ مولانا تقی عثمانی نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’علوم القرآن‘‘ میں روح المعانی کے حوالے سے یہ تعریف نقل کی ہے، (علوم القرآن، تقی عثمانی، ص 324) جبکہ مولانا گوہر رحمان نے بجاطور پر اسے ابوحیان کی طرف منسوب کیا ہے (علوم القرآن، گوہر رحمان، ص 2/214) امام سیوطی نے بھی الاتقان میں اس تعریف کو ابو حیان کی طرف منسوب کیا ہے۔ (الاتقان، ص 748)