کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 35
سے کلامِ الٰہی کے اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں، عقل و اجتہاد اور غوروفکر کے ذریعے سے مطالب قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور انہیں واضح کرنا تفسیر بالرای ہے، نیز اس فصل میں تفسیر بالرای المحمود کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا کہ اگر تفسیری آراء و اجتہادات، کتاب و سنت، آثار سلف، کلام عرب کے اسالیب اور تفسیر بالرای کے لیے طے شدہ شروط و آداب کے موافق ہوں تو یہ تفسیر بالرای المحمود ہے، اس حصے میں تفسیر بالرای المحمود کا معنی و مفہوم اور شروط و آداب پر بحث کی گئی ہے، نیز اس کی جائز و ناجائز حدود کا تعین کیا گیا ہے، رائے محمود اور رائے مذموم کے درمیان حد فاصل کی وضاحت کی گئی ہے، یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تفسیر القرآن میں عقل و اجتہاد کے لیے کیا شروط و آداب ہیں۔
دسویں فصل: تفسیر بالرای المذموم: اگر تفسیری آراء قوانین لغت، کتاب و سنت، آثار سلف اور تفسیر بالرای کے لیے طے کردہ شروط و آداب کے منافی ہوں تو یہ تفسیر بالرای المذموم ہے اور اس کے منع و حرام ہونے پر تمام مفسرین و فقہاء کا اجماع ہے، اس حصے میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ تفسیر القرآن میں رائے کا غلط استعمال کن مقاصد کے پیش نظر کیا جاتا ہے نیز اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں اور ایسی تفسیر کو پہچاننے کی علامات کیا ہیں اور ایسے مفسرین کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے، ہمارے رجحان کے مطابق جدید دور میں تفسیر بالرای المذموم کے پیچھے بھی قدیم معتزلہ کے نظریات کارفرما ہیں۔ واللّٰه المستعان
گیارہویں فصل: یہ فصل سائنس اور تفسیر القرآن پر محتوی ہے، اس کے متعلق اہل علم کی دو آراء ہیں، کچھ علماء اس کی تائید کرتے ہیں جبکہ بعض حضرات اس کے برعکس دلائل دیتے ہیں، مؤلف نے اس سلسلے میں ایک معتدل اور متوازن رائے کی نشاندہی کی ہے اور سائنسی تفسیر کی شروط اور اس کے آداب کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کے ہر طالب علم کے لیے قابل مطالعہ ہے۔
برخوردار عزیز القدر مؤلف نے مجھے یہ گراں قدر مبارک تالیف کچھ عرصہ قبل نظرثانی کے لیے دی تھی، میں نے سفروحضر میں اسے اپنے ہمراہ رکھا، جہاں وقت ملتا بڑی باریک بینی کے ساتھ اسے زیر مطالعہ لاتا، دوران مطالعہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مؤلف نے