کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 34
پانچویں فصل: اس میں صحابہ و تابعین کے اقوال کی روشنی میں تفسیر القرآن کے اصول و قواعد بیان کیے گئے ہیں کیونکہ قرآن حدیث کے بعد صحابہ اور تابعین کے اقوال کو تفسیر القرآن میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے، نیز اس میں صحابہ و تابعین کے تفسیری اقوال کی مختلف انواع و اقسام اور ان کے متعلق تفصیلی احکام بیان کیے گئے ہیں۔
چھٹی فصل: عربی زبان و ادب کے ذریعے سے قرآنی تفسیر اور اس کے اصول و ضوابط پر یہ فصل مشتمل ہے، بلاشبہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے، لہٰذا قرآن کریم کی تفسیر کے لیے عربی زبان کے مفردات اور اسالیب و تعبیرات سے آگاہی انتہائی ضروری ہے، اس سلسلے میں امام مالک کا درج ذیل مقولہ بہت مشہور ہے، آپ فرماتے ہیں:
’’جو شخص عربی زبان کی معرفت رکھے بغیر کلامِ الٰہی کی تفسیر کرتا ہے اگر اسے میرے پاس لایا جائے تو میں اسے نشانِ عبرت بنا دوں گا۔‘‘
ساتویں فصل: اس میں تفسیر قرآن کے متعلق اسباب نزول کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے ہمارے ہاں اس کے متعلق بہت افراط و تفریط پایا جاتا ہے کچھ لوگوں کے نزدیک اسباب نزول کی کوئی اہمیت نہیں جبکہ کچھ حضرات ہر آیت کے متعلق کوئی نہ کوئی سبب نزول تلاش کر لیتے ہیں خواہ وہ خود ساختہ روایات پر ہی مشتمل ہو، اس فصل میں اسباب نزول کی پانچ اقسام کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
آٹھویں فصل: اس میں تفسیر قرآن کے متعلق اسرائیلی روایات کی حقیقت کو متعین کیا گیا ہے، واضح رہے کہ اسرائیلی روایات سے مراد یہودونصاریٰ کے بیان کردہ اقوال ہیں، ہمارے تفسیری ادب میں تورات و انجیل کے حوالے سے اسرائیلی روایات کی بھرمار ہے، مؤلف نے اس فصل میں ان روایات کی تحقیق و تنقیح کے بعد ان کی اقسام کو تفصیل سے بیان کیا ہے، نیز اس سلسلے میں چند قواعد کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے جن کا مطالعہ قرآن کے ایک طالب علم کے لیے ازحد ضروری ہے۔
نویں فصل: اس میں تفسیر بالرای سے بحث کی گئی ہے جس طرح آیات کونیہ میں غوروفکر اور تحقیق سے اسرار فطرت آشکار ہوتے ہیں اسی طرح قرآنی آیات میں تدبروتفکر