کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 33
دوسری فصل: اس فصل میں تفسیر بالمأثور کے معنی و مفہوم اور اس کی ضرورت و اہمیت کو واضح کیا گیا ہے، مؤلف نے تفسیر بالمأثور کے منہج کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’یہ منہج اس بات کا متقاضی ہے کہ اب رہتی دنیا تک آنے والے انسان خواہ وہ کتنے ہی ذہین و فطین کیوں نہ ہوں قرآن مجید کا صحیح فہم احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال صحابہ ہی سے حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تفسیر بالمأثور کا منہج ہی فکری انتشار سے بچاؤ کی ضمانت ہے آخر میں اس منہج پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
تیسری فصل: اس میں تفسیر القرآن بالقرآن کے اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں، قرآن کی بہترین تفسیر وہی ہے جو قرآن کے ذریعے سے کی جائے، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے مجموع الفتاویٰ میں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس قسم کی تفسیر کو بہترین اصل قرار دیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں اگر کہیں اجمال ہے تو دوسرے مقام پر اس کی تفصیل، اگر اطلاق ہے تو دوسری آیات میں اس کی تقیید اور اگر عموم ہے تو دوسرے مقام پر اس کی تخصیص کر دی گئی ہے۔
چنانچہ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ قرآن کا ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے۔ پھر اس کی چھ اقسام کی مثالوں سے وضاحت کی گئی ہے۔
چوتھی فصل: اس میں تفسیر القرآن بالحدیث کو موضوع بحث بنایا ہے، مؤلف نے اس فصل میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ حدیث رسول کیونکر شارح قرآن ہے؟ نیز اس میں تفسیر القرآن بالحدیث کی انواع و اقسام بیان کی گئی ہیں، متقدمین کے نزدیک احادیث کی حسب ذیل تین اقسام ہیں:
1۔ نصوص قرآن پر مشتمل احادیث، 2۔ قرآنی آیات کی شارح احادیث،
3۔ مستقل اضافی احادیث
اس فصل میں قرآنی تفسیر کے سلسلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیان کردہ ’’علوم خمسہ‘‘ کی وضاحت بھی خوب کی گئی ہے۔