کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 32
3۔ فراہی مکتبِ فکر: اس فکر کے حاملین کے نزدیک قرآن مجید کے اندرونی نظام کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے، ان کے ہاں قرآن مجید کی ہر سورت کا ایک مرکزی مضمون ہوتا ہے جس سے سورت کی تمام آیات مربوط ہوتی ہیں۔
4۔ تفسیر بالرای المذموم: اس سے وابستہ حضرات نقل و نظم کے بجائے لغت و عقل کو بہت استعمال کرتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ حضرات ارکان اسلام اور عقائد و ایمانیات جیسے بنیادی تصورات میں جمہور امت سے انحراف کے مرتکب ہوتے ہیں۔
مؤلف نے ان چاروں مکاتب فکر کے اصولِ تفسیر کو سامنے رکھا اور ان کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ایک مفصل مقالہ تحریر کیا، جس پر پنجاب یونیورسٹی نے انہیں امتیازی حیثیت سے پی،ایچ،ڈی کی ڈگری عنایت کی۔ اللهم زد فزد
زیرنظر تالیف اسی مقالے کا ایک حصہ ہے جسے معمولی ترمیم و اضافے کے ساتھ الگ سے شائع کیا جا رہا ہے۔ قارئین کرام اس کی تفصیل ’’عرض مؤلف‘‘ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ مؤلف نے خیر القرون میں تفسیر بالمأثور کے مسلمہ اصول تفسیر واضح طور پر مرتب کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے، نیز فن تفسیر میں دستیاب عربی اور اردو لٹریچر کا ایک جامع خلاصہ پیش کیا ہے، دوران مطالعہ اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں، اس کتاب میں بیان کردہ اصول تفسیر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی فرد واحد کے خود ساختہ نہیں، بلکہ جمہور مفسرین انہی اصولوں کے تحت تفسیر قرآن کی سعادت حاصل کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ مؤلف نے اس کتاب کو حسب ذیل گیارہ فصول میں تقسیم کیا ہے۔
پہلی فصل: یہ فصل بنیادی اصطلاحات پر مشتمل ہے، اس میں مؤلف نے اصول کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کو بیان کیا ہے اور اس کے تین معنوں میں دلیل، قاعدہ اور حالتِ اصلی کی وضاحت کی ہے، پھر تفسیر کا لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیا ہے، قرآن و حدیث میں اس کے استعمالات کی نشاندہی کرتے ہوئے امام زرقانی کی بیان کردہ تعریف کو مختصر اور جامع مانع کی حیثیت سے بہترین قرار دیا ہے، آخر میں تاویل کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے تفسیر و تاویل میں فرق کو واضح کیا ہے۔