کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 30
اور قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کے لامتناہی راستے بھی کھلتے چلے گئے۔
قرآن مجید کی تفسیر اگر طے شدہ اصولوں سے ہٹ کر کی جائے تو پھر یہ کتاب ہدایت کے بجائے گمراہی کا سلسلہ بھی بن سکتی ہے، یہی وہ چیز ہے جس کی طرف قرآن میں بایں الفاظ اشارہ کیا گیا ہے:
﴿يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا﴾
’’اس کے ذریعے سے بیشتر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔‘‘ (البقرۃ: : 26)
اس کتاب سے گمراہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پہلے سے اپنے ذہن میں کچھ طے شدہ عقائد و نظریات لے کر آتے ہیں اور انہیں کتاب الٰہی میں من مانی تاویلات کے ذریعے سے سمونے کی کوشش کرتے ہیں گویا خود کتاب الٰہی کے تابع بننے کے بجائے کتاب الٰہی کو اپنے خیالات کا تابع بنانے کی سعی ناشکور کرتے ہیں، یہ ایک ایسی وبا ہے کہ ماضی میں یہود و نصاریٰ اس کا شکار ہوئے، انہوں نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریف کی اور ان کے معانی و مفاہیم میں ردوبدل کیا، اسی بیماری کے سدباب کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَن قال في القُرآنِ برأْيِه فلْيتبوَّأْ مَقعَدَه من النارِ))
’’جس نے قرآن مجید کے متعلق محض اپنی ذاتی رائے اور اپنی عقل کی بنیاد پر کوئی بات کہی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے۔‘‘
(سنن الترمذی: 2951)
اس وعیدِ شدید سے بچنے کے لیے اہل علم نے دور صحابہ سے لے کر آج تک اس امر کا اہتمام کیا ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر ان اصولوں کی روشنی میں کی جائے جو پہلے سے طے شدہ ہیں تاکہ ان گمراہیوں کا راستہ بند ہو جائے جن کا شکار یہودونصاریٰ ہوئے تھے، تفسیر کے بہت سے اصول و قواعد تو خود قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں اور بہت سے دوسرے قواعد و ضوابط ایسے ہیں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دئیے ہیں۔ بیشتر تفسیری قواعد صحابہ کرام نے اپنی گہری بصیرت، دینی تربیت اور فطری ذوق سلیم کی بنیاد پر مرتب