کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 29
وضاحت صرف ایک مثال سے کرتے ہیں تاکہ پوری بات نکھر کر سامنے آ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ﴿٨٧﴾ ’’ہم نے آپ کو سبع مثانی مرحمت فرمائیں اور قرآن عظیم عطا فرمایا۔‘‘(الحجر: 87) صاحب قرآن کے بغیر قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والے غور کریں کہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں سبع مثانی سے کیا مراد ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے علاوہ کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے پتہ چل سکے کہ بار بار دھرائی جانے والی یہ سات چیزیں کیا ہیں، کیا صرف عقل کے بل بوتے پر اس آیت کا صحیح مفہوم متعین کیا جا سکتا ہے؟ یہ عقدہ صاحب قرآن نے حل کیا کہ اس سبع مثانی سے مراد قرآن کریم کی سات آیات ہیں پھر ان سات آیت کی تعین بھی صاحب قرآن سے معلوم ہوتی کہ ان سے مراد وہ سات آیات ہیں جن پر سورہ فاتحہ مشتمل ہے۔ (صحیح البخاری: 7403) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اپنی استعداد کے مطابق صحابہ کرام اور صحابیات عظام نے کسب فیض کیا، پھر اس علم نبوی کے مطابق قرآن کریم کی تفسیر کی، پھر یہی تفسیری سرمایہ تابعین اور تبع تابعین کے ذریعے سے علمائے تفسیر تک منتقل ہوا، مفسرین کرام نے قرآن فہمی کے باقاعدہ اصول و ضوابط مرتب کیے جو آج اصول تفسیر کے نام سے ایک مستقل فن کا درجہ رکھتے ہیں۔ قرآن فہمی کے لیے ان اصولوں کا واحد مقصد یہ ہے کہ جس طرح کتاب الٰہی کا متب محفوظ رہا، اس کی زبان محفوظ رہی، اسی طرح اس کے معانی اور مطالب بھی ہر قسم کی تحریف سے محفوظ رہیں اور اس بات کا اطمینان رہے کہ کوئی شخص نیک نیتی یا بدنیتی سے اس قرآن کی تعبیر و تشریح طے شدہ اصولوں سے ہٹ کر من مانے انداز سے نہ کرنے لگے، ان اصولوں کی پیروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے صحابہ کرام نے کی، تابعین اور تبع تابعین نے کی تا آنکہ ان تمام اصولوں کو اکابر ائمہ تفسیر نے دوسری اور تیسری صدی میں اس طرح مرتب کر دیا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے ان کی پیروی بھی آسان ہو گئی