کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 28
و افکار، اعمال و افعال اور تقریرات سب کچھ آ جاتا ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جو قرآن کریم سے باہر ہو، آپ کے اسی خلق کو پورے عالم کے لیے نمونہ بنایا گیا ہے، اس خلق نبوی کے بغیر نہ تو قرآن سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جا سکتا ہے، جن لوگوں نے خلق نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انہوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں، ہم اس سلسلے میں ایک مثال سے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق سیدنا یونس علیہ السلام کو مچھلی نے نگل لیا، آپ مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ سے آہ و زاری کرتے ہوئے اس ’’قید خانہ‘‘ سے نکلنے کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور وہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکل آئے، لیکن معجزات کا ایک منکر اس معجزے کا انکار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل آیات کے متعلق لکھتا ہے: ﴿فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ﴿١٤٣﴾ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٤٤﴾ ’’اگر وہ (یونس علیہ السلام) تسبیح کرنے والوں میں نہ ہوتے تو قیامت کے دن تک اس (مچھلی) کے پیٹ میں پڑے رہتے۔‘‘ (الصافات:143، 144) وہ لکھتا ہے:’’لیکن اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے، انتہاء کی جدوجہد کی اور مچھلی کی گرفت سے اپنے آپ کو چھڑا لیا، اگر وہ ایسا نہ کرتا اور بہت اچھا تیراک نہ ہوتا تو مچھلی اسے نگل لیتی پھر وہ قیامت تک باہر نہ آ سکتا۔‘‘(مفہوم القرآن: 3/1043) اس مفہوم پر مزید گفتگو کی گنجائش نہیں، معمولی سوج بوجھ رکھنے والا انسان اس کے بودے وین کو محسوس کر سکتا ہے۔ واضح رہے مفہوم القرآن نامی کتاب غلام احمد پرویز کی تالیف ہے جو اس نے قرآنی تفسیر کے طور پر لکھی ہے۔ بہرحال قرآن فہمی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان انتہائی ناگزیر ہے، ہم اس کی